چٹائی پر زندگی گزارنے والا شہنشاہ

چٹائی پر زندگی
چٹائی پر زندگی گزارنے والا شہنشاہ

رسول اکرم ﷺنے ایک چھوٹی سی پُرانی چٹائی پر زندگی گزاری اور دُنیا کی کبریائی کو لرزاتے رہے۔ اپنے نفس کو ہر آسائش اور زائل ہونے والی حقیقتاً بے وقعت نعمت سے دُور فرما کر جھڑکتے رہے اور فاقہ کے شعلوں کے نیچے بے نیازی سے زندگی گزارتے رہے۔
ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ ﷺمیں کے کمرے میں داخل ہوئے آپ کو ایک پُرانی سی چٹائی پر لیٹے ہوئے دیکھا، چٹائی کے اطراف (کنارے) غربت نے کھا لیے تھے۔ آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑ چکے تھے، آپ کے سر کے نیچے پتوں سے بھرا ایک تکیہ تھا۔ آپ کے سر پر گرد اور مٹی تھی اور کمرے کے کونے میں مٹھی بھر جو رکھے تھے جوتقریباً صاع ہوں گے دِیوار کے نیچے قرظ اُگی ہوئی تھی (قرظ ایک قسم کی گھاس ہے جس سے کھال کو دباغت دی جاتی ہے)۔یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ رسول اکرم ﷺکی اِس حالت پر رونے لگے۔

آنحضرت ﷺنے اُنہیں روتے دیکھا تو پوچھا! ابن خطاب کیوں روتے ہو؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! میں کیوں نہ روؤں؟ اِس چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیئے ہیں‘‘ ان الفاظ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آنسو اور حرکت کرتا کندھوں کا گوشت شامل ہو چکا تھا ‘‘۔

آپ کی الماری میں کچھ نہیں سوائے (چند دانوں کے ) جو میں دیکھ رہا ہوں۔ ادھر قیصر و کسریٰ سونے کی چارپائی پر ریشم اور دیباج کے بچھونوں پر ہیں ۔پھلوں اور نہروں میں ہیں اور آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اُس کے دوست ہیں۔
یہ سن کر آپ ﷺنے زیر ِلب مسکراہٹ کے ساتھ ارشاد فرمایا۔ اے ابن خطاب! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اُن کی اچھی چیزیں نعمتیں بہت پہلے دُنیا ہی میں دے دی گئی ہیں اور یہ جلد ہی ختم ہو جائیں گی اور ہم وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اُن کی نعمتیں آخرت تک کے لئے موخر کر دی گئی ہیں ۔ کیا تم اِس بات سے راضی نہیں ہو کہ ہمارے لئےآخرت ہو اور اُن کے لئے دُنیا ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں؟ (مستدرک حاکم ،ابن حبان، مسند احمد وغیرہ)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ اس سے کوئی نرم بچھونا لے لیا کریں تو؟ آپ ﷺنے خشوع اور دلگیری کے ساتھ فرمایا۔ اے عمر! میرا دُنیا سے کیا کام؟ میری اور دُنیا کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی گرم دوپہر میں چلتا ہوا سوار کچھ دیر کے لئے درخت کے سائے میں سستا لے اور پھر اس درخت کو چھوڑ کر چلا جائے۔ (ترمذی: ۲۲۷)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *