مسکان، حجاب اور شیطانی ثقافتیں

طاغوتی و غیر اسلامی طاقتیں گاہے بہ گاہے مسلمان کے ایمانی درجہ حرارت کو اوچھے ہتکھنڈوں کے ذریعے جانچتی رہتی ہیں۔ کبھی رسول پاک ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنا کر تو کبھی قادیانیت کو ہوا دے کر، کبھی اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر اور کبھی مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی لگا کر اپنے ’’جمہوریت پسند ‘‘ ہونے کا محض دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں۔ حجاب کا خوف تو دشمنوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا۔ وہ نِت نئے حربے آزما کر اِسلام پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی مسلمان نوجوان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تو کبھی مسلمان عورت پر حجاب کی قدغن لگائی جاتی ہے۔
جہاں بھی معاشرہ جنسی ہوس زدہ ہو جاتا ہے وہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ثقافتیں شیطانی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ ہندو مذہب بھی دُنیا کے دوسروں مذاہب کی طرح اپنے وجود کو تحلیل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہر انسان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مذاہب تخلیق کر لیے ہیں اور اُن کو اپنے نام دے دیئے ہیں۔ ناقص العقل یہ بھلا بیٹھا ہے کہ انسان کی اصل تو ایک ہی ہے۔ اُس کا مذہب بھی ایک ہی ہے اور مذہب کی تعلیمات وقت کے بدلنے کے ساتھ بدلا نہیں کرتیں۔ اُصول و ضوابط ہمیشہ ایک ہی رہتے ہیں۔ حالات عالم تغیر میں ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ یہی تو آزمائش ہے ، امتحان ہے۔
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ طالبہ مسکان خان مقامی کالج میں بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے۔ گذشتہ دنوں سے مسکان خان کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ حجاب پہن کر ایک سکوٹی پر سوار اپنے کالج میں داخل ہوتی ہیں اور اس دوران اُنہیں دیکھ کر ایک ہجوم ’جے شری رام‘ کے نعرے بلند کرتا ہے اور اُن کا پیچھا کرتا ہے لیکن اس شیر دل طالبہ نے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر ’’اللہ اکبر،اللہ اکبر ‘‘کا نعرہ بلند کیا۔

حجاب
مسکان خان کا کہنا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، میں تو معمول کے مطابق کالج جا رہی تھی۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگ گروپ کی شکل میں کھڑے ہو گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ برقع پہن کر کالج کے اندر نہیں جائیں گی۔ اگر آپ کالج جانا چاہتی ہیں تو آپ کو برقع اور حجاب اُتار کر اندر جانا ہو گا۔ اگر آپ برقعے میں رہنا چاہتی ہیں تو آپ گھر واپس چلی جائیں۔ مگر میں اندر آ گئی۔ ابتدا میں مَیں نے سوچا کہ میں خاموشی سے چلی جاؤں گی لیکن وہاں بہت سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ ’برقع ہٹاؤ‘ اور ’جے شری رام‘ جیسے نعرے لگ رہے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ میں کلاس میں جاؤں گی لیکن وہ تمام لڑکے میرے پیچھے ایسے آ رہے تھے جیسے وہ سب مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ یہ 30 سے 40 افراد تھے۔ میں اکیلی تھی، ان میں انسانیت نہیں ہے۔ اچانک وہ میرے پاس آئے اور چلانا شروع کر دیا۔ کچھ نے نارنجی رنگ کے سکارف پکڑے ہوئے تھےاور میرے سامنے آ کر لہراتے ہوئے حجاب ہٹانے کا کہہ رہے تھے۔
یہ تو تھا وہ واقعہ جو کرناٹک کے کالج میں رُونما ہوا اور مسکان خان کے اس دلیرانہ اقدام نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دُنیا کے مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جلا بخشی۔ مسلمان عورتوں کا سر فخر سے بلند کیا۔ دُنیا بھر سے اس عظیم لڑکی کو پذیرائی ملی اور دوسری طرف ہندوستان کی نام نہاد سیکولرازم کا پردہ بھی چاک کیا۔
اسلام نے عورتوں کو بہت حقوق دیئے ہیں۔ عورت کو ایک ایسا مقام دیا ہے۔ جو کسی اور مذہب میں نہیں۔ عورت کے لئے جو حقوق اسلام نے دئیے ہیں اور جو شرائط اسلام نے بتائی ہے وہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوسکتیں۔ عورت کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشرے کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
مسکان خان کے اس دلیرانہ عمل نے اپنے بنیادی حق کے حصول کے لیے باطل قوتوں کو ایک شیر کی طرح للکارا ہے۔ اس صنف نازک کا بلند کیا گیا اللہ اکبر کا نعرہ آہنی خنجر بن کر کفارکے دِلوں میں ایسا پیوست ہوا کہ کفر کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ اگر شیر خوابِ غفلت میں بھی ہو تو وہ اُتنا ہی خطرناک ہے جتنا حالتِ بیداری میں ہوتا ہے کیونکہ اُسے بیدارہونے کے لیے صرف ایک آہٹ ہی درکار ہے۔
اِس لڑکی کی دیدہ دلیری نے یہ ثابت کیا ہے کہ اب بھی ایسی پاکباز عورتیں ہیں جو اپنی جانیں تو قربان کر سکتی ہیں لیکن اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتیں۔اپنی شرم و حیا کی خاطر خون کا آخری قطرہ بھی بہا سکتی ہیں۔
آج کا مسلمان خوابِ غفلت میں ضرور ہے لیکن آج بھی ایک جسمانی اعتبار سے کمزور لیکن ایمانی قوت سے مالامال لڑکی کی ایک للکار نے کفار کے دِلوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سیکڑوں کی تعداد لاکھوں کے لشکر کو نیست و نابود کرنے کے لیے کافی ہوا کرتی ہے۔ اگر رب چاہے تو ابابیل کے ذریعے ہاتھی والوں کو ہلاک کر کے رکھ دے۔
یہاں ایک اہم بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میرے نانا جان مجھ سے قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے حالات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے حلقہ احباب میں بہت سے دوست ایسے بھی تھے جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا ۔ ایک دن میں ایک ہندو دوست کی دُکان پر بیٹھا ہوا تھا۔ تو اُس دُکاندار کی ایک بیٹی کچھ کھاتے کھاتے گھر سے نکل کر دُکان میں آ گئی، اُس کو کھاتا دیکھ کر اُس دُکاندار نے اپنی بیٹی کو ڈانٹا کہ تجھے نہیں معلوم کہ آج کل رمضان کا مہینہ ہے اور مسلمان روزے رکھ رہے ہیں اور تُو اُن کے سامنے کھا رہی ہے۔ اپنے باپ کے ڈانٹنے پر اُس نے کھانا چھوڑ دیا اور گھر کی طرف چل دی۔
اس واقعے سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ پہلے رشتے دِلوں سے نبھائے جاتے ہے۔ اِنسان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو ۔ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اُن کے رویوں میں اتنی لچک ضرور ہوتی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزار سکیں۔ خوشی و غمی کے لمحات میں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔
اُس دَور کے ہندوؤں کا اگر رویہ تھا تو ہمارا دین بھی غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ خیر خواہی رواداری ، اُن کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا جیسے واقعات سے مسلمانوں کی تاریخ مزین ہے۔ دین اسلام کی خوبصورتی اور حسن بھی یہی ہے کہ اس میں نہ صرف اہل ایمان کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے بلکہ غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں۔


اسلام اُن تمام حقوق میں، جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں، بلکہ اُن کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں اُن غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی سازشی سرگرمیوں میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔
مسلمانوں کی طرح اقلیتوں کی عزت و آبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ ، کسی کی توہین و تذلیل اور اس کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹٹولنا، اُسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہندو مسلمانوں کی نماز روزوں کا اتنا احترام کیا کرتے تھے تو آج کے ہندو کو مسلمان عورت کے لباس اور اس کے برقع و حجاب سے کیا تکلیف درپیش ہے۔ ؟
کیا …ہندو بھی اپنی مذہبی اقدار کو فراموش کر بیٹھا ہے۔؟
کیا …آج کا ہندو شرم و حیا کی تمام حدیں پار کر چکا ہے؟
کیا …ہندوستان میں مذہبی آزادی یا سیکولرازم صرف ڈرامہ ہے؟
کیا …ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے خلاف تعلیم دی جاتی ہے ؟
کیا …اُن کی تعلیم کا مقصد صرف مسلمان خواتین کے حجاب اور برقع کے خلاف احتجاج ہے؟
کیا …والدین اُن کو ایسی ہی تعلیم دینے کے لیے سکول و کالج بھیجتے ہیں ؟
کیا …شیطانی قوتیں مسلمان خواتین کو بے حیائی و فحاشی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے؟
کیا …ہندو ثقافت بھی حالات کے ساتھ تغیر و تبدل کا شکار ہو گئی ہے؟
کیا …یہ ہندو سیاسی چالبازوں کی ہندو مسلم کو آپس میں لڑانے کی چال ہے؟
کیا …ہندو نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کا شکار اور ہوس زدہ ہو چکی ہے؟
کیا… پاکستان کا وجود ابھی تک متعصب ہندو طبقہ کی نیند اُڑائے ہوئے ہے؟
ان تمام سوالات کا جواب صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ آج بھی ہندوستان تقسیم سے پہلے کی طرح انہی مسائل کا شکار ہے۔ خانہ جنگی کی طرف گامزن ہے۔ آج بھی وہاں دو قومی نظریہ پنپتا دکھائی دے رہا ہے۔ آج کا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دُوسری اقلیتیں بھی ہندو انتہا پسند سیاسی حکمرانوں کے سامنے سراُٹھا رہی ہیں۔
گجرات کے مسلم کُش فسادات، بابری مساجد کی شہادت، نہتے کشمیریوں پر مظالم، گاؤماتا کے نام پر مذہبی انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گائے ذبح کرنے کے الزام میں مسلمان نوجوانوں کو قتل کر رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ انہوں نے نہ کبھی پاکستان کو تسلیم کیا اور نہ ہی ہندوستان کے مسلمان کو تسلیم کریں گے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ وہ ہندوستان میں کسی بھی اقلیت کے وجود کو برداشت نہیں کرتے۔
سکھوں کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ رویہ جیسی اہم مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔
غیر مسلم ثقافتیں تو عورت کو برہنہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔ اس لیے مسلمان عورت کا حجاب اِس لیے بھی اُن کو برداشت نہیں کیونکہ اِسلام نے عورت کو جو اعلیٰ و ارفع مقام اور عزت دی ہے وہ کسی بھی مذہب میں نہیں۔ اِسلام ایک واحد دِین ہے جو اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔ جبکہ باقی تمام مذاہب اپنی اصلیت اور تعلیمات سے محروم ہو چکے ہیں۔ ماضی میں اگر عورت شرم و حیا کا پیکر تھی تو قیامت تک اُس کا یہ اعزا ز برقرار رہے گا۔
مولانا ابوالکلام ؒ کہا کرتے تھے کہ اگر دُنیا دس ہزار یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی۔ ایک ہندو قوم کی تنگ نظری اور دوسری مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی۔
مختلف قوموں میں عورت کا مقام حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا۔ یونانیوں اور رومیوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں اس قدر ترقی کی کہ اِس بنیاد پر بہت سی تہذیبیں اور بہت سے علوم وجود میں آئے لیکن عورت کا مقام اُن کے ہاں بہت ہی غیر اہم اور بے وقعت تھا ، عورت کو انسانیت پر بوجھ سمجھا جاتا تھا اور اُن کے نزدیک عورت کا مقام صرف اتنا تھا کہ وہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی ر ہے ۔
ایک دور ایسا بھی آیا جب عورت اور مرد کے تعلق کو حیوانی تعلق سمجھا جاتا تھا۔ پھر شیطانی گندگی اور نجاست سمجھا گیا۔ اُن کے ہاں عورت کے ساتھ ایسا رویہ کبھی اختیار نہ کیا گیا جس کا انسانی فطرت کے عین مطابق ہو۔ معاشرے میں عورت کے کردار کو ایسے زاویے سے دیکھا ہی نہ گیا کہ عورت نفس انسانی کا حصہ، جنس بشری کی خالق ، بچوں کی تربیت کی محافظ اور ذمہ دار ہے۔ جس سے ایک اچھا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرتی ہوئی عورت محض فرد واحد نہیں بلکہ اُس عورت کے باپ، بھائی، بیٹا یا خاوند کے کردار کی نمائندہ ہے۔ وہ جب معاشرے میں دوسروں لوگوں کے شانہ بشانہ چلتی ہے تو گویا اس کے ہمراہ خاندان کی تربیت ہوتی ہے۔
اگر حالات کی تلخی کو محسوس کیا جائے تو شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ کسی بھی ملک کی ثقافت اس کے مذہب کے اِردگرد گھومتی ہے۔ مذہب ہی ثقافت کو تخلیق دیتا ہے۔ زندگی کیسی گزاری جائے، لباس کیسا پہنا جائے، تعلیمی ادارے کیسے ہوں، شادی بیاہ کی رسومات کیسی ہونی چاہئیں، فرد و احد یا اجتماعیت کے بارے میں صحیح سمت بھی مذہب ہی متعین کرتا ہے۔ نوجوان طبقہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ثقافت کو لے کر اپنے ملک کی ترقی کو نیا موڑ دیتا ہے۔
حالات کی ستم ظریفی ہے کہ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ حالات بدل چکے ہیں، ٹیکنالوجی کا دور ہے، مذہب کی پیروی سب دقیانوسی ہیں۔ ہر طرف ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا بھوت سوار ہے۔ اگر ہم بھی اُن پُرانے خیالات کے حامل بزرگوں کے مطابق زندگی گزاریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ ہم نے تو ترقی کرنا ہے، وقت کا ساتھ ساتھ چلنا ہے۔
حالانکہ ترقی کرنے کو کوئی بھی مذہب نہیں روکتا لیکن مذہب کے دائرے میں رہا جائے۔ ستم یہ کہ مذہبی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا اور عورت کے ننگے پن کو بھی ترقی کا راز سمجھا جانے لگا۔ دفاتر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے عورت کی خوبصورتی کا سہارا لیا جانے گا۔ پھر تیزی کے ساتھ ٹرینڈ بدل گیا ہے اور عورت زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے لگی۔ کاروبار تو شاید آسمانوں کو چھونے لگے لیکن اخلاقیات زمین بوس ہوتی چلی گئی۔ مرد و زن کے اختلاط سے نئے مسائل جنم لینے لگے۔ سکول و کالجز ہوں یا کاروباری دفاتر ہر طرف ایسے ہی مسائل انگڑائیاں لیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
بچوں کے لیے پہلی درسگاہ تو والدین ہی ہوا کرتے ہیں۔ بچوں کو جو تربیت گھر سے ملتی ہے وہی تربیت اگر سکول میں داخل ہو کر بھی ملتی رہے تو یہ بچے کاروباری مراکز میں جا کر اپنی شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں سوال صرف اچھی یا بُری تربیت کا ہے۔


چہ جائیکہ ملکی ثقافت کو فروغ دیا جاتا لیکن فلموں ڈراموں کے موضوعات سوائے عشق و محبت کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر ڈرامے یا فلم میں لڑکا لڑکی عشق کرتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ کبھی مسلمان لڑکا ہیرو تو ہندو لڑکی ہیروئن اور کبھی ہندو لڑکا ہیرواور ہیروئن مسلمان لڑکی۔ حالانکہ اسلام عورتوں کو نامحرم سے اختلاط اور ایسی بے حیائی کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمان مرد اور عورت کو اخلاقی طور پر پست دکھایا جاتا ہے۔ دکھایا یہ جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم ایک ہیں۔ اس آڑ میں مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی ثابت کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف اسلامی ثقافت کو رُگید رہے ہوتے ہیں۔ نت نئے موضوعات دِکھانے کے لیے اکثر اوقات تعلیمی اداروں کا ایسا ماحول دکھایا جاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے ایسے مناظر فلمائے جاتے ہیں جو نوجوان نسل کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں اور جب فلم یا ڈرامہ کے بارے ڈرامہ میکرز سے یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے تو وہ دیکھنے والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں سکرین پر دِکھا دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف طلباء کی طرف یہ ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے کہ تعلیمی اداروں کا ماحول، مردوزن کا اختلاط، خواتین کے رنگ برنگے بھڑکیلے لباس پہننا تو ہم نے فلموں یا ڈراموں سے ہی سیکھا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس تو کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ نہ ہی تعلیمی اداروں میں اور نہ ہی فلم و ڈرامہ میں۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ اگر دُنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی، جنسی بے راہروی ، دہشت گردی، بدامنی جیسے مسائل پر قابو پانا ہے تو نسلِ نو کی تربیت پر توجہ دینا ہو گی۔ اس کو باور کرانا ہو گا کہ دُنیا میں انسانی وجود کا مقصد نہ صرف امن و سلامتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے خیرخواہی کو رواج دینا بھی فرض اولین ہے۔ انسانی رویوں کو بدلنا ہوگا۔ نسلِ نو کو تخریب سے تعمیر کی طرف، بدامنی و انتشار سے امن و سلامتی کی طرف اور منفی رویوں کو مثبت رویوں میں بدلنا ہو گا۔ جو آگے چل کر بڑھتی گھٹن کو بہار کے تازہ جھونکوں میں بدل سکتے ہیں۔
اچھے اور مہذب ہونے کی تربیت اچھے والدین اور اچھے اساتذہ کرتے ہیں۔ تمام ممالک کے تعلیمی حلقوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی تربیت پر زور دینا ہوگا۔ اخلاقیات کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *