برف باری اور سرد رویے

مری میں برف باری اور سرد رویے۔ ملکہ کوہسار مری میں حالیہ شدید برف باری کے نتیجے میں ایک اطلاع کے مطابق 23 ہلاکتیں ہوئیں۔ پنجاب حکومت کو اس المناک واقعہ کے سلسلے میں جوابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی اُس کے مطابق مری اور اِردگرد کی کئی سڑکوں کی گزشتہ کئی برسوں سے خاطرخواہ مرمت نہیں کی گئی اور یوں گڑھوں میں گرنے والی برف جمع ہو تی گئی ۔برف سخت ہونے اور جم جانے کے باعث ٹریفک کی آمدورفت میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مری میں موجود ایک نجی کیفے کے سامنے برف باری کے باعث پھسلن تھی اور اس کے سدباب کے لیے کوئی حکومتی انتظامات نہ تھے اور یہی وہ مقام تھا جو مری سے نکلنے والوں کے لیے بڑا راستہ تھا، چونکہ اس راستے سے برف ہٹانے کے لیے کوئی مشینری موجود نہیں تھی۔ لہٰذا ٹریفک کی آمدورفت میں بے ضابطگی پیدا ہوئی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بار مری میں گزشتہ سالوں سے زیادہ رش تھا۔ جونہی محکمہ موسمیات کی طرف سے یہ خبر ملی کہ مری میں برف باری متوقع ہے تو سب قدرتی نظاروں کے حُسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے برف باری کے شوقین سیاحوں کی ایک بھاری تعداد نے مری کا رُخ اختیار کیا ۔ خلاف معمول ٹریفک کا رش اور انتظامات ناکافی ہونے کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔


یہ حادثہ ایک دن میں اچانک پیش نہیں آیا۔ بلکہ گزشتہ ہفتے سے محکمہ موسمیات کی جانب سے مری میں کئی روز تک وقفےوقفے سے جاری رہنے والی اِس صورت حال کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ چونکہ ماہ سرما کی وجہ سے سکول و کالجز میں چھٹیاں تھیں۔ ملک بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے مری میں ڈیرے ڈال دیئے اور ہر گزرتے ہوئے دن کےساتھ اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مقامی اِنتظامیہ کے مطابق مری میں چند ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش تھی جب کہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ برف باری کے اِس موسم میں اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کے رش کی وجہ سے یہ مسائل تو پیدا ہونا ہی تھے۔ پھر مری سے گلیات اور مظفرآباد کے راستے مقامی آبادی سے بھی گزرتے ہیں۔جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک بڑھنا بھی یقینی ہے۔
نتیجے میں اِس المناک اور پُرنم حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔ شدید برف باری غیر متوقع طور پر دیکھنے میں آئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ِاس بار برف باری زیادہ ہوئی ہے اور گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ بھی توڑ دیئے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک سانحہ مری میں سیاحوں کی اموات کا سبب کاربن مونو آکسائیڈ کی زیادتی ہے۔
اب سوالات یہ پیدا ہوتےہیں کہ ٹریفک کے مسائل کیوں پیدا ہوئے؟ برف باری میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بچانا کس کی ذمہ داری ہے؟جب پارکنگ کا خاص انتظام نہ تھا تو اتنی گاڑیوں کومری میں کیوں داخل ہونے دیا گیا؟ کیا محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی سے مقامی انتظامیہ ناواقف تھی؟کیا اِداروں کا باہمی رابطوں کا فقدان اصل سبب ہے؟
سیاحتی مقامات میں فروغ حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔اگر انتظامیہ سیاحتی اُمور میں یونہی غفلت برتتی رہی اورایسے واقعات رونما ہوتے رہے تو کیا ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا یا زوال پذیر ہو گی۔


سیاحوں کو موسمی حالات سے آگاہ کرنا‘ اُن کو مطلوب تمام سہولیات فراہم کرنا وزارت سیاحت سے لے کر ضلعی انتظامیہ تک تمام اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کسی بھی موسمی حالات میں کن کن مسائل کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ اُن کی جان و مال کے لیے حفاظتی اقدامات‘ ٹریفک اورگاڑیوں کی پارکنگ کے مسائل کا حل ‘ ہوٹلز و ریسٹورنٹ میں بلاجواز مہنگائی کا سدباب‘ مقامی انتظامات کے مطابق سیاحوں کی بڑھتی ہوئی آمدورفت کی روک تھام وغیرہ ۔
واقعہ کے وجوہات و محرکات کچھ بھی ہوں حکومتی تحقیقات ہوتی رہیں گی‘ میٹنگز کو بلایا جاتا رہے گا‘پریس کانفرنسیں بھی منعقد ہوںگی‘ سیاستدان ایک دوسرے پر کوتاہی اور بد انتظامی کا الزام لگاتے رہیں گے اور اپنے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے ساتھ ’’بے پناہ اخلاص‘‘ جتاتے رہیں گے۔ بااثر سیاسی شخصیات کی طرف سے لواحقین کے ساتھ اظہار غم کے لیے گھر بیٹھےٹویٹر پر ٹویٹ کریں گے۔ اخبارات میں خبریں چھپیں گی اور کالم لکھے جائیں گے ‘ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مرنے والوں کے لیے کچھ ویڈیوز بناکر اپنے ویوز ‘ فالورز بڑھائیں گے اور ٹی وی چینلز پر تبصروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
تبصروں میں ایک دوسرے پر تابڑتوڑ لفظی جملوں کے حملے ہوں گے۔ کچھ دنوں تک لوگوں کی موت ان تمام سرگرمیوں کو زندگی بخشتی رہے گی اور پھریہ واقعہ کچھ دنوں کے بعد دُوسرے واقعات کی طرح دِلوں سے محو ہونا شروع ہو جائے گا اور بالآخر بھول جائیں گے جس طرح ماضی کے دیگر کئی حادثات بھولتے آئے ہیں۔

‘‘یاد ماضی عذاب ہے یارب…… چھین لے مجھ سے حافظہ میرا’’

اور زندگی …اُسی ڈگر پر دُوبارہ رواں دواں ہو جائے گی جواس واقعےسے قبل تھی۔


قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا‘ اُن کے لواحقین کے لیے کتنا بڑا صدمہ ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں۔ لیکن مرنےوالوں کی روحیں شکوہ کرتی ہیں کہ ہم تو اپنی جانوں سے گئے تم پریس کانفرنس کرتے رہے۔ ہماری روحیں پرواز کر گئیں اور تم فضائی دورے کرتے رہے۔ ہمارے لواحقین ہماری موت کے غم میں خون کے آنسو روتے رہے اور پریس کانفرنسزمیں ہنستے ہنساتے بھی رہے۔ ہم موت سے کھیلتے رہے اور تم سیاست سیاست کھیلتے رہے۔ ہم ہلاک ہو گئے‘ ہم اور ہمارے بچے سردی سے نہیں بلکہ حادثے کے ذمہ داران کے سرد رویوں سے ٹھٹھر کر مرے۔
اگر آپ اُن مرنے والوں کی جگہ پر خود کو محسوس کریں اور اُن بے بس اور معصوم بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو دیکھیں تو پھر اُن کیفیات کا احساس ہو گا جو اُس وقت اُن پر گزر رہی ہو گی ۔اس وقت کی بے بسی و بے چارگی یقیناً آپ کو اشکبار کرے گی۔
سانحہ مری صرف مرحومین کے پسماندگان کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس پاکستانی کے لیے ہے جس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی‘ بہنوں کی محبت بسی ہے۔ دوسرے مسلمان بھائی‘ بہن کی موت کا غم بھی اپنوں کی موت کے غم سے کچھ کم نہیں۔ انسانیت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ نے خود پیدا فرمایا۔ نبی اکرم ﷺ کے ایک فرمان کے مفہوم کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی حصہ کو چوٹ لگتی ہے تو پورا جسم اُس چوٹ کے درد کو محسوس کرتا ہے۔
اُن لوگوں کی خدمات بھی قابل ستائش ہیں جنہوں نے موسم کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے اور اپنی جان کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کو پہنچے۔ کچھ مقامی ہوٹلوں نے مفت کھانے کے ذریعے مدد کی تو کچھ لوگوں نے راستے صاف کرنے میں معاونت کی۔

پاک آرمی کےنوجوان مدد کرتےہوئے

امدادی کاموں میں معاونت کے لیے پاک فوج جوانوں کو بھی طلب کیا گیا۔ فوج کے انجینئر اہم شاہراہوں کو کھولنے میں مدد کے لیے اقدامات کرتے رہے۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق جہاں مشینری نہیں جا سکتی تھی وہاں پر فوجی جوانوں کو بھیجا گیا جنہوں نے متاثرین کی مدد کی۔
برف پوش مری میں سرد رویے اور بے حسی کی مثالیں بھی مشاہدے میں آئی ہیں۔ موقع محل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہوٹل کے مالکان نے کمروں کے کرایوں میں ہُوشربا اضافہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں سیاحوں کے کثیر تعداد نے راتیں سڑک پر گاڑیوں میں گزاریں۔ خوردونوش کی اشیاء بھی مہنگے داموں فروخت ہوئیں۔ جس کا اعتراف مقامی انتظامیہ نے بھی کیا۔
موقع کی حساسیت سے مجبور لوگوں سے فائدہ اُٹھانے والے یہ بے ضمیر اور بے حس لوگ انسانیت کے رشتے کی دھجیاں بکھیرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اُن مجبور لوگوں کی جگہ وہ یا اُن کے اپنے بھی تو ہو سکتے ہیں۔ یہ حالات اُن پر بھی تو آ سکتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں قربانی و ایثار کا درس دیتا ہے۔ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں آپ خود کو بے لوث ہو کر دوسروں کی مدد کے لیے پیش کریں ‘ لیکن اگر آپ کسی کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اُن کے لیے مشکلات میں اضافہ بھی نہ کریں۔

‘‘شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات’’

حکومتی حکام کی طرف سے مرنے والوں کی مالی امداد کا اعلان کر دیا گیا ہے جو کہ ایک خوش آئند ہے۔ یہاں ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ یہی امدادی رقم جو مرحومین کے لواحقین کودی جا رہی ہے اگر مری کی سڑکوں کی مرمت وغیرہ میں لگا دی جاتی تو شاید یہ سانحہ بھی نہ ہوتا اورنہ لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے (آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *