دُنیا کی ہوس اور انجام ( سبق آموز واقعہ)

دُنیا کی ہوس۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے ایک بادشاہ نے خوش ہو کر ایک شخص کو یہ کہا کہ تمہیں یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ سورج کے غروب ہونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لو گے ، اتنی زمین تمہیں دے دی جائے گی اور اس کے برعکس سورج غروب جانے تک دائرہ مکمل نہ کرسکے تو تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔

یہ سن کر خوشی خوشی اُس نے سفر کا آغاز کر دیا۔ شروع میں وہ شخص تیز تیز قدم اُٹھانے لگا۔ چلتے چلتے ظہر کا وقت ہو گیا۔ تو اُس کو خیال آیا کہ اب واپسی کا سفر شروع کر دینا چاہیے لیکن لالچ نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا ۔ اُس نے سوچا کہ کیوں نہ تھوڑا سا اور آگے جایا جائے۔ پھر اُسے واپسی کا خیال آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک خوبصورت پہاڑ ہے۔

دُنیا کی ہوس
MONEY WALLET

اس کو دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اِس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لوں۔ لہٰذا اُس نے اس خوبصورت پہاڑ کو بھی اپنے احاطے میں لے لیا۔ بالآخر اس نے واپسی کا ارادہ کر لیا اور سفر شروع کردیا۔

آغاز میں تیز تیز چلنے کی وجہ سے وہ کافی تھک بھی چکا تھا اور اس کو جلد ہی محسوس ہو گیا کہ کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ اب واپسی میں یوں لگتا تھا کہ جیسے سورج نے اس کے ساتھ تیز رفتاری کا مقابلہ شروع کر دیا ہے۔وہ جتنا تیز چل سکتا تھا چلتا رہا لیکن سورج بھی اُتنی ہی تیزی سے ڈھلتا رہا ۔

عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا کہ سورج نے جیسے پگھلنا شروع کر دیا ہے۔ اس شخص نے دوڑنا شروع کر دیا لیکن اُس کو سب کچھ اپنے ہاتھوں سے جاتا نظر آ رہا ہے۔ اب وہ اُس لمحے کو بھی کوس رہا تھا کہ جب لالچ نے اُس پر غلبہ کر دیا تھا۔

اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور اس کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اُس کا سینہ درد کے مارے پھٹا جا رہا ہو۔ اب بہت دیر ہو چکی تھی مگر وہ تھا کہ دوڑتا ہی جا رہا تھا۔ بالآخر سورج غروب ہوگیا اور وہ شخص بھی ایسے گرا کہ پھر وہ اُٹھ بھی نہ سکا۔ اُس کو جلد یقین ہو گیا کہ وہ مات کھا چکا ہے۔ سفر کا نقطہ آغاز اُس سے ابھی بھی کافی دُور تھا ۔ شرط بھی یہی تھی کہ سورج غروب ہونے تک اُس نے جو دائرہ مکمل کر لیا تو وہ اُس کو مل جائے گا، لیکن ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔ اب اُس کو رہ رہ کر اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ اگر وہ لالچ کی بجائے قناعت سے کام لیتا تو وہ بہت کچھ حاصل کر سکتا تھا۔

دُنیا کی ہوس
دُنیا کی ہوس

اس عبرت آموز واقعہ سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے کہ آج ہم نے اپنے دُنیاوی مقاصد اتنے وسیع کر لیے ہیں کہ اس کو حاصل کرنے میں شب و روز محنت کر کے اتنی تیزی سے گزاررہے ہیں کہ واپسی کا خیال بھی نہیں اور جب واپسی کا خیال آتا ہے تو سوائے پچھتانے کے اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں۔ وقت ایسے گزر گیا کہ جیسے مٹھی سے ریت سے سرک رہی ہو اور ساری ریت کب سرک گئی اور مٹھی کب خالی ہو گئی کچھ احساس نہیں رہا اور پھر دفعتاً موت نے آ لیا اور سب کچھ اسی دُنیا میں چھوڑ کے جانا پڑا۔

اس کہانی سے دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو طمع و لالچ سے گریزاں رہنا چاہیے۔ قناعت کو اپنا شعار بنائے اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پر صابر و شاکر رہے۔

بعدازاں قبر کے کتبہ پر یہ لکھا جائے گا… اس شخص کی ضرورت بس اتنی جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبرہے۔

اللہ پاک ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائےاور خاتمہ بالخیر فرمائے (آمین ثم آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *