خوش رہنے کے قدرتی طریقے

خوش رہنے کے قدرتی طریقے۔ دنیا کا ہر شعبہ ممکنہ حد تک خوش اور اچھی زندگی گزارنے کے لیےجدوجہد کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے بیسویں صدی کے آخر میں ایک فلسفی اور مفکر البرٹ آئن سٹائن نے پیش کی تھی۔ یہ محض ایک فلسفیانہ تصور ہے جس کا تعلق ان کی زندگیوں سے افراد کی اطمینان کی سطح کے جائزہ سے لیا گیا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں کتنے مطمئن ہیں، خوشی کیا ہے اور اس کا اصل مطلب کیا ہے۔ اس لیے خوشی کے اس پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے انسانی زندگی پراثرات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ خوشی سے انسانی وجود اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کیسے متاثر ہوتے ہیں۔

خوشی ایک ذہنی کیفیت اور شعوری احساس ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی و سماجی زندگی سے اطمینان حاصل کر تا ہے۔ اسی کا نام خوشی و مسرت ہے۔ سکون و اطمینان کا دوسرا نام ہی خوشی ہے علاوہ ازیں رنج و غم اور ناخوشی کا منفی احساس اِسی چیز دوسری تعریف ہے۔

اچھی زندگی

اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا انسانی نظام تخلیق کیا ہے کہ نہ تو ہم مستقل طور خوش رہ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ غم و پریشانی بھی ہمیشہ باقی رہے۔ کیونکہ دُکھ تکلیف اور غم و الم کی حقیقت بھی اتنی ہی مسلمہ ہے جتنی خوش رہنا ۔ ایک عام انسان جو کبھی خوش رہتا ہے تو کبھی اُداس ہو جاتا ہے۔ کبھی ہنستا ہے تو وہ کبھی روتا ہے،کسی پریشانی کو لے کر رات بھر کروٹیں بدلتا ہے تو کبھی بے فکری اور پُرسکون نیند سوتا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ جب ہمیشہ خوش نہیں رہ سکتا تو پھر مستقل رنجیدہ و پریشان کیوں رہا جائے؟ اگر آپ کے غمزدہ رہنے کے اسباب کا وجود ہے تو پھر یقیناً خوش و خرم رہنے کی وجوہات کو بھی تلاش کیاجا سکتا ہے۔ اگر انسان زندگی کی تلخیوں کو سوچ سوچ کر پریشان ہو سکتا ہے، تو پھر اس سے ملنے والی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ناکامیاں ملنے کے بعد اُس کا تذکرہ کر کے اُداس ہو جاتا ہے تو کامیابی ملنے کے بعد اس کا چرچا کر کے خوش بھی ہو سکتا ہے۔

قدرتی طور پر خوش ہونے کے لیے آپ کو اپنی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔اگرچہ یہ بات احمقانہ ہے کہ خوش رہنے کے لیے بھی کوشش کرنا ہوتی ہے ۔ یہ بچگانہ اور احمقانہ صرف اسی وقت تک کے لیے ہے جب تک کوشش نہ کی جائے۔ کسی رو تے ہوئے بچے کو ہنسا دیا جائے،بھٹکے ہوئے کو رستہ دکھا دیا جائے، کسی کا درد سُن لیا جائے‘ کچھ کہہ لیا جائے یا کسی سے کچھ سن لیا جائےاور جو لوگ ناراض ہیں اُن کو منا لیا جائے، یہ یقیناً ایک کوشش ہی کے نتیجے میں ممکن ہے۔

بچپن میں ہم كمزور ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کی صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے رویوں کو بدل سکیں۔ بچپن میں بچوں کی خوشی کا زیادہ تعلق والدین سے منسلک ہوتا ہے۔ بچے کی تربیت کےلیے صحیح سمت کا تعین بچے کی شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں کی تربیت ایک علیحدہ موضوع ہے ۔ بچوں میں بہت کچھ انجوائے کرنے کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن اختیار نہ ہونے کی وجہ سے یا عدم تحفظ ‘ خوف اور طبیعت میں اضطراب ان کو خوش رہنے سے بازرکھتا ہے۔ جبکہ بالغ ہو نے کے ساتھ ساتھ بااختیار بھی ہو جاتے ہیں اور وہ کچھ کرتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں۔ جب بالغ ہوتے ہیں تو زیادہ پُراعتماد ہوتے ہیں کیونکہ جب چھوٹے تھے تو کسی سے بات کرنا اور اُن پر اعتماد کرنا آسان ہوتا تھا لیکن بڑے ہوتے ہی اتنی آسانی سے دوسروں پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کو قدرتی طور پر تبدیل کر نے کی صلاحیت آجاتی ہے اور آپ دوسروں کے موڈ کو محسوس کر کے بہتر تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ آپ اپنے آپ پر کم وقت گزارتےہیں جبکہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر اور دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔

چليں ديكھتے ہيں کہ قدرتی طور پر خوش كيسے رہا جا سكتا ہے۔

انسانی زندگی دو طرح کے ہوتی ہے ۔

انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی

خوش گوار زندگی
خوش گوار زندگی کو محسوس کریں۔

انفرادی زندگی میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ ’’میں کون ہوں اور کیا ہوں‘ مجھے کیوں پیدا کیا گیا ہے۔ میرا دُنیا میں آنےکا کیا مقصد ہے۔ مجھے کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ہے؟‘‘سب سے مشکل کام خود کو تلاش کرنا ہے اور آپ کے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آپ کو مایوس کرتے ہیں لیکن آپ کو یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خوش آپ کو رہنا ہے اس کے لیے خوشی حاصل کرنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ آپ ہی کوسیکھنا ہےکہ مجھے خوش رہنے کے لیے کیسے خود كو تبديل كرنا پڑے گا۔ ميں یہ سمجھتا ہوں كه مجھے تو وہ ہونا چاہیے جو مَیں قدرتی طور پر ہوں۔ اگر آپ ایک خوش و خرم انسان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی شخصيت کی جستجو کرنا ہوگی جو آپ ميں ہی کہیں گم ہو كر ره گئی ہے۔ خود كو تلاش كرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کون ہیں؟ اگر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میں تنہا بھی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں، تو اب مجھے کیا کرنا ہے۔؟

اللہ تعالیٰ نے انسانی قلوب کا سکون اپنے ذکر و عبادت میں رکھا ہے۔ مراقبے کے معمول کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کا اہتمام بھی بہت اہم ہے۔ یہ آپ کی زندگی کے محرک لمحات کو زندگی بخشتے ہیں۔اِنسانی دِل کا مطمئن ہونا حقیقی خوشی کا باعث ہے۔

اگر مجھ میں کوئی پسندیدہ کھانا کھانے سے خوشی کااحساس پیدا ہوتاہے تو مجھے اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا ہو گا اور مثبت پہلوؤں کو محسوس کرتے ہوئے لطف اندوز ہوناچاہیے۔اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ مجھے یہ کھانا کیوں پسند ہے ؟ کیا مجھے اس کا ذائقہ پسند یا پھر اس کے اندر موجود غذائی اجزا ہیں جو اچھی صحت کے لیے موزوں ہیں تو پھر آپ اپنی شخصیت میں خوشی کے ساتھ ساتھ اچھی صحت کو بھی انجوائے کر رہے ہیں اور اگر اس میں آپ کو صرف ذائقہ پسند ہےاور اس کے ناقص غذائی اجزا سے آپ کو کوئی سروکار نہیں تو آپ صرف ذائقےسے محظوظ ہو رہے ہیں جو آپ کو وقتی لذت سے خوشی تو فراہم کر رہا ہے لیکن دوسری طرف آپ اپنی اچھی صحت کو اپنے ہاتھوں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ اگر ذائقے کے طور پر اگر اس کو چکھنا چاہیں تو اس کی کم مقدار کو بھی انجوائے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے کھانے کو ترک کرنا زیادہ بہتر ہے‘ جو آپ کو حقیقی خوشی دینے میں مدد دیتا ہے۔ گویا آپ کا حقیقت شناس ہونا بھی آپ کے لیے حقیقی خوشی کا باعث بنتا ہے۔

یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ اگر آپ حقیقت میں خوش رہنا چاہتے ہیں تو کسی بھی چیز کی اصلیت و حقیقت کو سمجھ کر فیصلہ کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ زیادہ سونے کے عادی ہیں اور یہ عمل آپ کو خوش رکھتا ہے۔ تو یہاں پر زیادہ سونے کے فائدے اور نقصانات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگر زیادہ سونے کے فائدے ہیں تو آپ کو یہ عمل کرنا چاہیے اور اگر اس کےنقصانات زیادہ ہیں تو پھر آپ کو یہ عمل قطعی طور پر نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی نیند کی حقیقت کو سمجھ لیں تو فیصلہ آپ خود کرلیتےہیں اور آج کی تحقیق بھی یہ کہتی ہے کہ زیادہ سونے کے نقصانات بھی زیادہ ہیں۔ ذہنی دباؤ‘ موٹاپا‘ذیابیطس اور دِل کی بیماری جیسی بیماریاں زیادہ سونے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بھی زیادہ سونے کی عادت نہیں چھوٹ رہی تو آپ حقیقی خوشی سے خود دُور ہو رہے ہیں اور خدانخواستہ اگر آپ ان بیماریوں میں کسی ایک کا بھی شکار ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج یقیناً آپ کی خوشیوں کے قاتل ثابت ہوں گے۔ کچھ بیماریاں تو علاج کرنے کے بعد ختم ہو سکتی ہیں لیکن کچھ بیماریاں ہمیشہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔ دل کی بیماری یا ذیابیطس وغیرہ۔ ہر بیماری کے لاحق ہونے کے بعد اُن کی علامات بھی آپ کے رویوں کو متاثر کرتی ہیں۔ چڑچڑاپن‘ بات بات پر لڑناجھگڑنا‘ بے حسی کی عادت کی وجہ سے آپ کی اِنفرادی زِندگی اِجتماعی زندگی کوبھی شدید متاثر کرتی ہے اور یوں بُرے نتائج کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔اِس عادت سے آپ کے قریبی رِشتے بھی دُور ہو جاتے ہیں۔ نظامِ زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ نظام خواہ خاندانی ہو یا کاروباری ‘ تعلیمی میدان ہویا کھیل کا میدان آپ کی شخصیت دُوسروں پر اثرانداز ہوتی ہے۔زیادہ سونے کی عادت سے شروع ہونےوالا یہ سفر کہاں جا کر ختم ہوتاہے … نہیں معلوم۔ اِس دوران کتنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ اِس کا اندازہ آپ شاید نہیں لگا سکتے۔ فرد فرد مل کر ایک معاشرے کو جنم دیتے ہیں۔ جیسا ایک فرد ویسا ہی ایک معاشرہ۔ جس معاشرے میں جس قسم کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے ‘ معاشرے کے ایسے لوگ ہی نمائندگی کرتے ہیں۔اچھے لوگ ہی اَچھا معاشرہ مرتب کرتے ہیں۔ بُرے لوگوں کے بُرے اثرات اچھے خاصے معاشرہ کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

اب اگر آپ اپنے روز مرہ کے معاملات کو پیش نظر رکھیں تو آپ سے سرزد ہونے والا کوئی بھی کام اگر اس فارمولے کے مطابق نہیں ہے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی کے سفر کی سمت درست نہیں ۔ ہر عمل کےصحیح یا غلط ہونے کافارمولہ ہی آپ کی شخصیت کو متعین کرتا ہے۔ صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک کے معمولات کی ترتیب آپ کےاپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس دوران کے تمام اعمال جو آپ سےسرزد ہونے ہیں فرداً فرداً ہر عمل سے لطف اندوز ہو کر حقیقی خوشیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس عمل کو میرٹ پر سرانجام دیا جائے۔ یعنی اس کا حق ادا کیا جائے۔ اِس عمل کو سرانجام دینے میں کسی قسم کی غفلت نہ برتی جائے۔

پانی پیتے وقت یہ احساس پیدا ہو کہ حلق سے نیچے اُترتا ٹھنڈا پانی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ایک سکون و تازگی دے رہا ہے۔ تو آپ ایک پُرکیف کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس افراتفری کے عالم میں پانی پینا خطرناک بھی ہو سکتا ہے اور آپ اس اِحساس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو آپ کو سکون فراہم کرتا ہے۔اس طرح صبح نہانے کے لیے پسندیدہ شیمپو سے لے کر رات کو پسندیدہ تکیے اور بستر پر سونے تک آپ اپنا پورا دن اِنجوائے کر سکتے ہیں اور خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ ماں باپ ‘بہن بھائیوں سے ملنا جلنا اِن خوشیوں کو دوبالا کر دیتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو جگہ جگہ بہت سی چھوٹی چھوٹی خوشیاں نظر آئیں گی۔ جب ہم خوشیاں دینے والے کسی بھی لمحے کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس لمحے کی رعنائی ہم سے روٹھ جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کی سادہ سادہ چیزوں سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہوں گے تو ان کے فوائد بھی ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔

اگر آپ طالب علم ہیں تو آپ کا کلاس روم آپ کے لیے جنت بن سکتا ہے۔ پسندیدہ مضامین کا اِنتخاب آپ کے تعلیمی سفر کو آسان کر دیتا ہے۔ وہی کلاس روم جو دوسرے نالائق طلباء کے لیے کسی جیل سے کم نہیں ‘وہی کلاس روم آپ کے لیے باعث خوشی بن جاتا ہےاُستاد کا ہر لیکچر آپ کو آپ کی دادی کی سنائی ہوئی دِلچسپ کہانی کی طرح مسحورو محظوظ کرتا ہے۔ اچھے اور مخلص دوستوں کےساتھ کھیلنا بھی خوشی کا احساس دِلاتا ہے۔ کھیل کے ساتھ ساتھ اُن کی مدد کرنا‘ اساتذہ کا احترام کرنا ‘ چھوٹوں سےشفقت سے پیش آنا ‘ بڑوں کو عزت و تکریم دینا اور والدین کےمقام کو سمجھتے ہوئے اُن کے ساتھ پیش آنا آپ کو حقیقی خوشیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ آپ کا مثبت رویہ مثبت نتائج کا باعث بنتا ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ نیکی اور اچھائی کا کام آپ کو اطمینان اور حقیقی خوشی فراہم کرتا ہے۔ جبکہ غلط اور گناہ کا کام آپ کو مضطرب و بے چین کر دیتا ہے اور بُرائی کا بار بار اِرتکاب آپ کے دِل کو مُردہ کر دیتا ہے۔ نتیجتاً انسان ڈپریشن کاشکار ہو جاتا ہے اور حقیقی خوشیاں آپ سے رُوٹھ جاتی ہیں۔

پیش آنے والے حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے‘ اُس بارے میں مثبت پہلو نکال کر اس کو نئے زاویے کے ساتھ سوچنا بھی باعث مسرت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں تو صبح سے لے کر رات تک جو کچھ بھی آپ کے ساتھ اچھا ہوا اُس کو اپنے پاس تحریر کر لیں۔ اسی طرح جو کچھ آپ کے ساتھ اگر بُرا ہوا جس سے آپ کو پریشانی لاحق ہوئی تو اُس کا بھی اندراج کر لیں اور یہ عمل کم ازکم ایک ہفتہ تک باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں۔ ہفتے بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تحریر کی ہوئی فہرست میں آپ کے ساتھ ہونے والے اچھے معاملات کی تعداد بُرے معاملات کے نسبت زیادہ ہو گی ۔جو آپ کے ساتھ اچھا ہوا اُس کی جانچ پڑتال کریں کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟ ایسے کون سے اعمال آپ نے کیے جس کا نتیجہ آپ کو ملا ؟ اسباب تلاش کریں اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش کریں اور ان خوشیوں سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے برعکس اگر آپ کے معاملات میں کچھ بُرا ہوا‘ تلخ تجربات ہوئے تو سوچیں کہ اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں تو اس کے اسباب کو تلاش کر کے اُن کوتاہیوں کو دُور کریں تاکہ اگلے ہفتے ایسا کچھ نہ ہو۔ ہفتہ بھر کی تلخیوں کو صرف اس لیے یاد رکھیں کہ مستقبل میں اس کا ازالہ کیا جا سکے۔ چیک اینڈ بیلنس کے اُصول کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ یہ اُصول آپ کو بہت جلد باشعور ‘ سمجھ دار اور جہاندیدہ بنا دےگا۔ اگر آپ کی بنائی ہوئی فہرست میں بُرائی کے نتائج زیادہ ہیں تو آپ کو اپنے معاملات میں نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انسانی فطرت میں یکسانیت سے جلد عاجز اور بور ہونا بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ یکسانیت آپ کو پریشان‘ اُداس اور مایوسی کو جنم دیتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے آپ کو اپنے معمول کی زندگی میں ردّوبدل سے کام لینا ہو گا۔ روزمرہ کے معمولات کو نئے زاویے سے سوچیں اور اس میں بہتری لائیں۔ سکول و کالج جانے کے لیے نت نئے راستوں کا انتخاب کریں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں تبدیلی لائیں۔ نئے دوستوں سے ملنا جلنا‘ نئی نئی سرگرمیوں کا انتخاب بھی آپ کو یکسانیت اور بوریت سے بچا سکتا ہے۔ ہفتہ بھر کی تعلیمی سرگرمیاں سرانجام دینے کے بعد چھٹی کا دن کسی تفریحی مقام پر گزارنا‘ یا کسی عزیز رشتے دار سے ملنے جلنے کی سرگرمی سے ہفتہ بھر کی تھکا دینے والی ترتیب سے سکون و اطمینان ملنا بھی باعث مسرت ہے۔ یہ خوشی آنے والے ہفتہ بھر کی مصروفیات میں آپ کو تیارکرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

دوسروں کے لیے زندگی گزارنا حقیقتاً سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس کا تعین آپ نے خود کرنا ہے کہ کس کس انداز میں آپ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا بھی ایک خوبصورت انداز ہے۔ اگر آپ کسی کی مالی امداد نہیں کر سکتے تو آپ کم از کم اس کے لیے بہترین رہنمائی کا ماحول بنا سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ خام خیال ہے کہ اپنی چیزیں دُوسروں کو دینے والا نقصان میں رہتا ہے اور لینے والا فائدہ اُٹھاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ جب بھی آپ اپنے لیے نئے کپڑے سلوائیں تو پُرانے کپڑوں میں ایک جوڑا کسی غریب کو ہدیہ کر دیں۔ اگر آپ کے پرفیوم کی خالی شیشی کسی روتے ہوئے بچے کو چُپ کروا دے اور اس کے ہونٹوں پر چند لمحوں کی مسکراہٹ لے آئے تو یہ خالی شیشی سے ملنے والی مسکراہٹ آپ کے دِل کو خوشیوں سے معطر و مزین کر دیتی ہے۔ ہمارے دین کی تعلیمات بھی اسی چیز کا درس دیتی ہیں کہ دینے والا ہمیشہ فائدہ میں ہی رہتا ہے۔ جس کا فائدہ دُنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔ جس کی تائید آج کل کے سماجی و نفسیاتی سائنسدان بھی کرتے ہیں کہ دینے سے فائدہ دینے والے کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور اگرغور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ معاشرے کے ستائے ہوئے‘ ٹھکرائے ہوئے غریب و مستحق لوگوں کے لیے مدد کرنے کا عمل بھی حقیقی خوشیوں کا ذریعہ ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنےوالے ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ دوسرے کے غم و پریشانی کو اپنی پریشانی محسوس کریں گے تو آپ اُس کی اچھے انداز میں مدد کر سکتے ہیں۔ کسی کی بھوک و افلاس کو وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جو خود بھی بھوکا رہا ہو۔ اس لیے کسی کی مدد کرنے کا حق بھی ادا کریں۔ آپ کو آپ کے اس عمل میں رُکاوٹ پیدا کرنےوالے بھی آپ کو ملیں گے۔ لوگوں کی باتیں اگر سننا پڑیں تو سُن کر صرف مسکرائیں اور اُن کو نظرانداز کر دیں۔ مستقل مزاجی سے کام لیں اور اپنے سفر کو جاری و ساری رکھیں۔

آپ درپیش مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا سیکھیں۔ کمزور لوگ مشکل آنے پر پریشان اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی کاروبار میں نقصان ہو یا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کا سامنا کرنے کے لیے اس کی وجوہات تلاش کریں پھر اُس کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔ جب بھی کسی سے کوئی نقصان ہو جائے تو اس کو اس لیے بھی معاف کر دیں کہ یہ نقصان آپ کی اپنی ذات سے بھی سرزد ہو سکتا تھا۔ عقلمند لوگوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ صبر کا دامن کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ نقصان سے بھی سبق سیکھنے کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے ہیں اور مایوسی سے بچتے ہیں۔ ناکامی کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں کیونکہ بعض اوقات منزل آپ کے اِردگرد ہی گھوم رہی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کے صبر کو آزما رہا ہوتا ہے۔ مستقل مزاجی‘ جدوجہد اورکوشش ترقی کا ثبوت ہے۔ ایسے لوگ حوصلہ مند ہوتے ہیں اور ہمیشہ خوش و خرم رہتے ہیں خواہ اُن کو یہ خوشیاں تکلیفوں و صعوبتوں کے بعد ہی کیوں نہ ملی ہوں۔

آخر میں گزارش ہے کہ فحش فلموں اور لٹریچر سے احتراز‘ سیاسی معاملات میں عدم دلچسپی‘ سوشل میڈیا سے دوری‘ فضول غیر نصابی سرگرمیوں سے پرہیز بھی آپ کے دِل میں اطمینان پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی منافرت و تفرقہ بازی سے دور رہیں۔ اِصلاحی کتب کے مطالعہ کا معمول بنائیں۔ تعمیری سوچ کے اہلیت کے حامل افراد سے تعلق و ربط قائم کریں۔ اُن کی محفلوں کے توسط سے آپ کی تخریبی سوچ تعمیری سوچ میں بدل سکے۔ اپنے تعمیری خیالات سے اس معاشرے کی بہتری و فلاح کے لیے دوسروں کی مدد کریں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *