بچوں کا ادب اور تربیت کا معاملہ

بچوں کا ادب اور تربیت
بچوں کا ادب اور تربیت

بچوں کا ادب یہ ہے کہ اس پر شفقت کرو، اُس کی خیر خواہی کرو، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چھوٹا کہے مجھے سینما دِکھا لاؤ۔ بس اُس کی شفقت سمجھ کر دکھا دو، اُس کی خیر خواہی یہ ہے کہ اُسے سمجھاؤ، یہ سمجھانا شفقت ہے۔ اس لیے کہ یہاں بچپن سے بری عادتیں پڑتی ہیں، بڑے اُن کو نہیں روکتے، پھر وہ بچے بڑے ہو کر کیسے چھوڑ دیں، اُن کو کسی نے ذہن نشین ہی نہیں کروایا کہ برائی کیا ہے اور بھلائی کیاہے؟

اِخلاقی امراض

ماں باپ بچے کے خوش لباس، خوش خوراکی پرتو نظر رکھتے ہیں مگر اِخلاقی امراض وہیں سے پیدا ہوتے ہیں، اُس کو سنوارا نہیں جاتا۔ بعض لوگ مار پیٹ سے بچے کو سدھارتے ہیں، جو مار پیٹ سے کسی کام پر لایا جاتا ہے، وہ مار پیٹ سے نکلتے ہی ساری برائیاں دوگنی چوگنی کرلیتا ہے اور بچے کو راضی کرنا کچھ مشکل نہیں۔
بس اُس کے آگے اپنا ماحول بنا کر پیش کر دو، اپنی بیوی، اپنے بھائی بہن کی حالت دُرست ہو تو اوّلاً گھر میں خالص دینی ہوگی جب تم ہی نماز نہیں پڑھو گے تو بچے کا ذہن کیسے نماز کی طرف آئے گا… دین میں کوئی مشکل نہیں ہے اور یہ کسی خوف سے نہیں آتا، نرمی سے بچے کو بتاؤ گے بچہ کبھی برے راستے پر نہیں چلے گا، ماں باپ کو جھوٹ بولتا دیکھ کر بچہ جھوٹ بولنا سیکھتا ہے ورنہ اُسے جھوٹ کہاں سے آئے …لہٰذا بچوں کا ادب یہ ہے کہ اُن کی اخلاقی تربیت کی جائے۔
یہاں یہ امر انتہائی اہم ہے کہ بچوں کو ان کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق  لٹریچر(ادب)، کتابیں اور رسائل و جرائد فراہم کیے جائیں جن کو پڑھ کر وہ محظوظ ہو سکیں۔ اُن کی فہم میں اضافہ ہو اور اچھی اور نیک باتیں سیکھنے میں انہیں معاونت مل سکے۔
گویا اِن بچوں کو وہ ادب فراہم کیے جائیں جن سے ان کے تشخص کی مکمل تعمیر وتشکیل ہو سکے لیکن لٹریچر کی اس فراہمی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ بچوں کو ایسی کتابوں، رسائل و جرائد یا ادب پاروں سے دور رکھا جائے جن سے ان کی تعلیم و تربیت کے بجائے ان کے ذہنوں پرغلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بازاروں میں دستیاب سستے اور غیر اخلاقی کومیکس بچوں کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں معاون و مددگار بننے کی بجائے اُن کے ذہنوں پر نہ صرف بُرے اثرات ڈالتے ہیں بلکہ انھیں بگاڑ کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *