اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار

اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے لیکن آج پُرفتن دور کی پروردہ نوجوان نسل اسلام پر عمل پیرا ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ کیا اِن کو اسلام سے محبت‘ نسبت اور تعلق نہیں ہے؟ کیا ان کو حضور سرور کائنات ﷺ کی اُمت ہونے کا دعویٰ نہیں ہے؟  اگر دعویٰ ہے اور ضرور ہے تو پھر اسلام کے سیکھنے اور سکھانے اور اپنے فرائض پر عمل پیرا ہونے کے لیے کیوں حرکت نہیں کرتی ہیں؟

اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مشرقی خواتین لباس اور زیور میں كفار كی عورتوں کی پیروی کرتی ہیں۔ اگر گھر ميں موجود ہيں تو ٹی وی پر غیروں کی کلچر زده فلمیں اور ڈرامے دیكھ رہی ہیں۔ باہر جاتی ہيں تو انہی ڈراموں كے مطابق فیشن كرتی ہیں اور ان كے جسموں پر نيم عرياں لباس زيب تن ہوتا ہے۔ یہی کچھ دیکھ دیکھ كر جوان ہوتی ہيں اور پھرشادياں كر كے اگلی نسل كو جنم دیتی ہيں۔ اسلامی ثقافت احكامات اور دينی ذمہ داريوں كو فراموش كر بیٹھی ہیں جب کہ غير اسلامی سرگرميوں ميں آگے آگے ہیں۔ دُنيا ميں محو ہیں لیکن آخرت کا ذرا فکر نہیں۔ مرنے كے بعد زمین کا پیوند بننا ضروری ہے۔ مگر مرنے كے بعد كيا بنے گا اوروہاں کے لیے کیا کرکے لے جا رہی ہیں۔ اس کا کچھ دھیان ہے۔

کہيں دور نہ جایئے صرف ہمارے ملک میں مسلمان عورتوں کی گود میں بچے پرورش پاتے ہیں۔ مگر ان بچوں کو نہ دین سکھایا جاتا ہے اور نہ دین کی محبت پر اُن کو اُبھارا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑكيوں کی مشابہت كرتے نظرآتے ہیں۔ گويا اچھی خاصی لڑکیاں بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ اس كے برعكس لڑكياں لڑكوں کی مشابہت اختيار كيے ہوئے  ہیں ۔افسوس صد افسوس۔ ماں باپ، بچے، سبھی شب و روز اسی دُھن میں ہیں کہ اُلٹے سيدھے فيشن كر كے کسی طرح ’’مہذب (انگریز )‘‘ہی بن جائيں۔ کاش! ہم مسلمان نہ ہوتے۔ مسلمان بن کر ملّا مولویوں کے فتوؤں کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔ اِسلام کی ناگہانی مصیبت کو کیونکر روکا جائے۔ نہ مسلمان ہوتے نہ پردہ حجاب کی پابندی کے لیے کوئی کہتا نہ کلب میں جانے سے کوئی روکتا۔ اختلاط کی پابندی نہ ہوتی۔نہ ایکٹرس بننے کی ممانعت کی جاتی نہ تصویریں بنوانے يا چھاپنے سے کوئی باز رکھتا۔ یہ خیالات ہیں مسلمان کہلانے والوں کے ۔ (معاذ اللہ)اچھے اچھے دیندار کہلائے جانے والے جن کی دینداری کا چرچا ہے اور قرآن و حدیث کے مدرس اپنی اولاد کو قرآن و حدیث پڑھانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ زبان سے گو نہ کہیں مگر عمل شاہد ہے کہ ان کے اندر کی آواز یہی ہے کہ ہم تو مولوی بن کر پچھتائے۔دین پڑھا کر اپنی اولاد کا تو ناس نہ کرنا چاہیے (العیاذ باللہ)

اگر اندرون خانہ زندگیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو دینداری کا شہرہ رکھنے والوں كے اپنے بچے بيرون ممالك ميں تعليم حاصل كر رہےہيں۔ ان كے چھوٹے بڑے سب امپورٹڈ كلچر ميں غرق ملیں گے۔ لڑکیوں کے سروں پر نہ دوپٹہ ہو گا اور فراک بلا آ ستین ہوں گے۔ آدھا سینہ آدھی کمر کپڑے سے باہر ہو گی اور اب توچست لباس ميں ملبوس خواتين دعوت گناه ديتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ ايسا لگتا ہے جيسے بےحيائی كے غيرملكی ايجنڈے پر رواں دواں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نام لینے والے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی طرف نسبت کرکے محمڈن بننے والے اپنی اولاد کو (جو آگے چل کر دوسری نسل کی ماں باپ بنے گی) بڑی بے دردی سے اللہ جل شانہ اور سرتاج انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت سے دو رسے دور تر کرنے کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اپنے بچوں كو دینی تعليم سے دور بھی رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ  کی سنتوں بھی زندگی اپنانا بھی محال لگتا ہے۔ مدعیان اسلام کو دین کا علم پڑھانے اور رسول پاک ﷺ کے نمونہ پر چلنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ بے سروپا محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے كيسے صحیح ثابت ہوسکتے ہیں۔ دل و دماغ كفار کی ثقافت ‘ رسوم و رواج كے اسير ہيں جبکہ اسلام ميں شتر بے مہار کی طرح من چاہی آزادی چاہتے ہیں۔ دوسروں کے طریقوں کو اچھا سمجھتے ہیں اور طرز معاشرت اور اعمال و اخلاق میں یورپ کے ملحدوں اورخدا فراموش، نفس پرست آدمی نما بھیڑیوں کی تقلید کو فخر سمجھتے ہوں۔

اسلام تو پاکیزہ دین ہے جو مرد و عورت يكساں پاکیزگی كا درس ديتا ہے۔ یہ ايك ايسا نظام حيات ہے جو انسانی زندگی ميں پيدا ہونےوالے ہر قسم كے انتشار و بگاڑ كے سدباب كے ليے رهنمائی فراہم كرتا هے۔ اس كره ارض پر ہونے والا كوئی بھی جرم خواه وه چھوٹا يا بڑا‘ کسی اسلامی ملك ميں سرزد ہو  يا غير اسلامی ملک ميں‘ اگر اُس کی جانچ پڑتال کی جائے تو نتیجتاً  آپ كو اس كے محركات وجوہات ميں جو بڑی وجہ نظر آئے  گی وه دين اسلام سے دوری ہی ہو گی۔

امریکہ جيسا ملك جو اپنے آپ کو مہذب ہونے کا دعویٰ  كرتا ہے۔ درج جرائم کی شرح ميں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔ زنا بالجبر اور زنا بالرضا كے واقعات بھی کسی سے ڈھكے چھپے نہیں ہیں۔ ایسی زندگی سے عاجز و تنگ آنے والوں ميں سب سے زياده تعداد خواتين کی ہے اس طرزِ زندگی كو ہمیشہ ہمیشہ چھوڑ كر اسلام کی پناه گاه ميں اپنے آپ كو محفوظ تصور كر رہی ہیں۔ جہاں ان كے اسلام كی طرف پلٹنے کی خوشی ہے اتنا ہی افسوس اس بات كا بھی ہے کہ ہم جو اسلام كے داعی ہیں وه اس كلچر كا حصہ بننے کو بہت بڑ اعزاز و فخر سمجھ رہے ہیں اور تباہی کے دهانے پر آچكے ہیں۔ اپني بنياد پر واپس پلٹنےتك كتنا نقصان كر بيٹھيں گے اس کا اندازه كرتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے۔

یہی دين اپنے رب تعالیٰ کی عبادت سکھاتا ہے۔ آخرت کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ شرم و حیاء کی تعلیم دیتا ہے۔ حرام وحلال کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے۔ شتر بے مہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑتا کہ انسان جو چاہے کرتا پھرے۔ انسان انسان ہے۔ انسانیت کے بے شمار تقاضے ہیں۔ اسلام ان تقاضوں سے باخبر کرتاہے اور حیوانیت و درندگی كي زندگی سے انسان کو بچاتا ہے۔ نفس پرستوں کو اسلام کی یہ گرفت ناگوار ہوتی ہے اور نفس پرستی میں سب کو شریک کرنا چاہتے ہیں کہیں آزادی نسواں کے لیے آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں، کہیں پردہ کی مخالفت ہو رہی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اسلامیات کی ڈگریاں لینے والے اسلام کے خلاف بولتے اور لکھتے ہیں۔

اسلام پر لیکچر ہو رہا ہے اور لڑکے لڑکیاں سب بے پردہ و بے حجاب ہو کر کلاس میں بیٹھتے ہیں اور عین اسلامی لیکچر کے وقت اسلام کی خلاف ورزی ہو رہی ہے گزشتہ صدیوں میں جہالت کی وجہ سے اسلام اور اس کے اعمال سے غفلت تھی اور آج کل علم ریسرچ اورنام نہاد ترقی اور مغرب سے حاصل کی ہوئی نئی تاریکی (جسے نئی روشنی کہتے ہیں) اسلام کے سمجھنے سے اور اس کے علوم سے وابستہ ہونے اور اس کے تقاضوں پرعمل پیرا ہونے سے روک رہی ہے۔ آج جب کہ ہمارا معاشرہ اسلام کا مدعی ہوتے ہوئے روز بروز اسلام سے دُور ہوتا جا رہا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں بے دینی جگہ پکڑتی جا رہی ہے اور موبائلز‘ ٹی وی ‘ سوشل ميڈيا كے ذريعے فواحش و منكرات کی بہتات نے پوری طرح ذہنوں کو مسموم کر دیا ہے۔ ان کے اسباب و دواعی کے دفاع و انسداد کے لیے انتھک محنت اورکوشش کی ضرورت ہے۔

رب تعالیٰ نے جو مقام اِس اُمت كے ہر فرد كو ديا ہےاس كو پہچاننا بہت ضروری ہے كيونكه نبی اكرمﷺ كے ہر اُمتی كو اِس دُنيا کی تقليد كرنے كے ليے نہیں پيدا كيا گيا بلکہ گمراه و بھٹكے ہوئے لوگوں كو اپنے راستے (صراط مستقيم )پر لانے كے ليے بنايا گيا ہے۔ اس ليےہر شخص اپنی بساط کی بقدر اور مقدور بھر اس کے لیے کوشش کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ ایسی ہوائیں چلنے لگیں گی۔ جو ملك ميں ترقی و خوشحالی لے كر آئيں گی۔

اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار
اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار

اگر آپ گھر كے سرپرست ہيں تو اپنے خاندان کی ذمہ داری كو سنبھاليں۔ حکومت کے افراد ہر محکمہ میں دینی احکام پر خود بھی پیرا ہوں اور ماتحتوں کو بھی دین پر چلانے کی اور دين کی طرف راغب كرنے کی كوشش كريں۔ تعلیمی اداروں ميں طلباء کی تربيت و اصلاح فرض كا درجہ رکھتی ہے۔ اساتذه بھی اپنے فرائض کی حساسيت کو سمجھیں کیونکہ یہ ايك فرد كا مسئلہ نہیں اُمت محمدیہ ﷺ کی بقا یعنی اسلام كی بقا كا معاملہ ہے۔ اصحابِ سیاست احکام شرعیہ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے رہیں۔

صحافی حضرات اپنے اپنے ٹی وی چينلز پر ‘ اخبارات روزانہ اُفق صحافت پر طلوع ہونے والے اخباروں میں دین اور دینیات کا چرچا کریں۔ سوشل ميڈيا پر غير اسلامی ‘ بے پردگی اور فحش مواد کی حوصلہ شکنی كريں۔ غیر دینی مضامین اور اشتہارات سے اخباروں اور رسالوں کو پاک کریں۔ موسیقی بند کرے اور اصلاحی تقاریر کا سلسلہ زیادہ زور شور سے جاری رہے سب نے مل کر جس طرح معاشرے کوبگاڑا ہے اسی طرح سب ہمت کرکے اس کی اصلاح کے لیے قدم اور قلم اٹھائیں اور ہر ممکن تدبیر کام میں لائیں۔ اپنے حقیقی ہیروز حضور اكرم ﷺ و صحابہ كرام رضی الله عنہم کی حيات مبارکہ كا پرچار كريں۔
یوں تو پورے ہی معاشرے کو اصلاح کی ضرورت ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ اصلاح نسواں پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ ہر بچہ کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ ماں صحیح مسلمان ہو گی تو اپنے بچے کو بھی اسلام سکھائے گی اور اسلام کے احکام و آداب کی تعلیم دے گی۔ازواج مطہرات كا طرز زندگی اپنی بہنوں و بیٹیوں ميں اُجاگر كريں تاکہ آنے والی نسل اس اُمت کی نگہباں بن كر اُبھرے ۔ (آمين ثم آمين)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *