ابھی تحقیق باقی ہے۔۔۔

آج کا محقق اور باریک بین طبقہ جس کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو وہ اپنے اپنے شعبہ میں چار سو کیمرے نصب کر کے تحقیق کرتا ہوا نظر آتا ہے تاکہ اُس کی نظر سے کوئی بھی پہلو اوجھل نہ ہو جائے اِ س لیے وہ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتا اور سو فیصد نتائج حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ اگر وہ سائنسدان ہے تو وہ کبھی خوردبین لگا کر تحقیق کرتا ہوا نظر آئے گا اور اگر ماہر فلکیات ہے تو دُوربین کے ذریعے اپنے شعبہ میں خاطرخواہ نتائج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماہر تعلیم ہے تو اپنے تعلیمی شعبہ میں  کامیابی و ناکامی پر تحقیق کرتا ہےاور اپنی کمزوریوں کو دُور کرتا ہے۔ اگر کھیلوں کے شعبے کو دیکھا جائے تو دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں بھی آپ کو یہی تحقیقی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ماضی کی اپنی ناکامیوں کو دُور کرنے کے لیے دوسرے کھلاڑیوں کی کمزوریوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو مضبوط کیا جاتا ہے تاکہ کھیل کے میدان میں دوبارہ مات نہ کھا سکیں اور اُن کی یہ کوشش یقیناً اچھے نتائج سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس دَور میں زندگی کے ہر شعبہ کی انسانی کارکردگی قابلِ دید ہے۔ یہاں ان شعبوں کا ذکر کرنا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تحقیق کے شعبے میں انسان کے محتاط رویوں کو موضوع بحث لانا مقصد ہے۔ آج کا انسان اپنے ذہنی استطاعت کے مطابق کوشش کرتا ہے اور اُس کی کوشش نے پوری دُنیا میں اُس کو منفرد مقام سے نوازا ہے۔
حضرت انسان کے اس جذبے نے کائناتی معلومات حاصل کرنے میں اپنی جدوجہد کو سمندروں کی گہرائیوں سے لے کر بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اگر وہ پہنچ نہیں سکا تو وہ خود تک نہیں پہنچ سکا۔ انسان کی اپنے جسم پر تحقیق تو قابل تعریف ہے لیکن اپنی روح تک پہنچنے میں اُس کی ناکامی بھی مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ انسان کائناتی معلومات جمع کرتے کرتے اپنی شناخت بھی کھو بیٹھا ہے۔ مذہب کا شعبہ بھی ایسے ہی تشنہ رہا کہ انسان نے اُس پر تحقیق کرنا ہی ترک کر دیا۔ وہ یہ بھی فراموش کر چکا کہ وہ دُنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے۔ اس کی وجہ تخلیق کیا ہے؟ اِس پر تحقیق ہونا …ابھی باقی ہے۔

تحقیق
اِس دُنیا میں جب بھی کسی بھی مشینری کو مارکیٹ میں بھیجا جاتا ہے ہے تو اُس مشینری کا صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک کتابچہ بھی ساتھ پیک کیا جاتا ہے۔ اس میں ہدایات درج ہوتی ہیں۔ جس کو عام زبان میں ’’مینوئل بک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایجاد کرتے وقت یہ مینوئل بک تو یاد رہ گئی لیکن اِنسان یہ بھول گیا کہ اُس کی بھی اپنی ایک مینوئل بک تھی جس میں زندگی کے گزارنے کے سنہرے اُصول درج تھے۔ وہ مینوئل بک کہا ں ہے اور اُسے کہاں تلاش کیا جائے ، اِس پر تحقیق ہونا …ابھی باقی ہے۔
دُنیا میں نفرت کے جذبے کیوں پنپ رہے ہیں ؟ بدلتے ہوئے پتھریلے انسانی رویوں نے اس جنت مثل زمین کو کیوں سنگلاخ و بنجر کر دیا ہے۔ ہر طرف جرائم کی کثرت ہے، بدامنی کی فضا قائم ہے۔ بے حسی کا دور دورہ ہے۔ آج دُنیا کو جن اخلاقی برائیوں کا سامنا ہے کوئی بھی آسمانی مذہب اس کی اجازت قطعاً نہیں دیتا ہے۔ پھر بھی جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی ہی جا رہی ہے اور گروہ انسانی میں منفی سوچیں کیوں جنم لے رہی ہیں، اس پر تحقیق ہونا… ابھی باقی ہے۔
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ دُنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی خوفناکی کی علامت ہے۔ کائنات کا انجام بہت قریب ہے۔ اگر اس آبادی کے اضافے کو نہ روکا گیا تو لرزہ خیز نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالانکہ جو وجوہات اِس دُنیا کو ختم کرنے کے درپے ہیں اُن اسباب سے وہ بھی غافل ہیں اور ہم مسلمان بھی۔ اُن اسباب پر بھی تحقیق ہونا …ابھی باقی ہے۔
دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی طرح آج کا مسلمان بھی انہی مسائل کا شکار ہے۔ منفی سوچ نے مسلمان کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اُس نے بھی حق پر ثابت قدم رہنا اور غلط کو غلط کہنا چھوڑ دیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب کوئی بھی مسلمان مرد یا عورت حق کی آواز بلند کرتی کہیں نظر آتی ہے تو ہم بھی نیند سے بیدار ہو جاتے ہیں۔ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں اور پھر سرمائی نیند سو جاتے ہیں۔اس غفلت پر بھی تحقیق ہونا …ابھی باقی ہے۔


بیس سال کے بعد امریکی تسلط سے آزادی ہمیں پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کی خوشی ہوتی ہے لیکن جب اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان ہوتا ہے اور حکم صادر کیا جاتا ہے کہ آج سے خواتین باپردہ رہیں گی اور حجاب میں رہ کر اپنی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گی۔ جب اس قانون کے اطلاق کا وقت آتا ہے تو پھر ہمارے ہاں روشن خیال مسلمانوں میں یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے اور آزادی نسواں کا دعویدار ایک طبقہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے بنیادی حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم ہو رہا ہے اُن کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔ اسلام سے محبت کے دوہرے معیار پر بھی تحقیق ہونا …ابھی باقی ہے۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور آج کل سوشل میڈیا پر یہ مہم بھی دیکھنے کو ملے گی کہ ایک بے حجاب مغربی عورت اپنے ادائیں دِکھا دِکھا کر اور روزہ دار مسلمان نوجوانوں کو قیمتی موبائل کا لالچ دیں گی کہ اگر وہ روزہ توڑ دے تو وہ قیمتی موبائل کا مالک بن سکتا ہے۔ اسلام سے متنفر شیطانی قوتیں ایسے اوچھے ہتھکنڈے پر کیوں اُتر آئی ہیں۔ ایمانی درجہ حرارت کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری اب ہم مسلمانوں کی ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اِس پُرفتن دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اِس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہے۔ ہم نے کیسے عالم کفر کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہی حربے اُمت مسلمہ میں صف شکنی کی فضا قائم کر رہے ہیں۔ اس پر سوچنا…ابھی باقی ہے۔

انسان پیدائشی طور پر اپنے خالق کا پابند ہے اس کے گرد ایک حفاظتی حصار ہوتا ہے جو انسان کو خالق سے بغاوت کو روکتا ہے۔ انسان پیدا تو آزاد نہیں ہوا لیکن آزاد رہنا پسند کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی کی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتا۔ جب بھی اِنسان خدائی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے خالق کے حفاظتی حصار سے نکل جاتا ہے اور معاشرے میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ آج کے اس محتاط ترین انسان کو عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اِنتشار و اشتعال کے سدباب کے لیے ان پہلوؤں پر غور وخوض کرنا … ابھی باقی ہے۔
اس پس منظر میں بات یہاں آ کر واضح ہو جاتی ہے کہ آج ہر شخص کو مذہب کی ضرورت ہے کیونکہ مذہب ہی وہ مشعل راہ ہے جو انسان کو جینے کے لیے صحیح رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مذہب ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اُصول و ضوابط روشناس کراتا ہے۔ اَچھے بُرے میں فرق کی وضاحت کرتا ہے۔ حقیقی اِنصاف کے تقاضے پورا کرتا ہے۔ مساوات کا سبق دیتا ہے۔ حقوق و فرائض کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ اب کون سا مذہب صراطِ مستقیم پر لے جاتا ہے۔یہ مذکورہ تمام صفات کس مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ اس پر تحقیق ہونا… ابھی باقی ہے۔

QURAN
اسلام ہی واحد دین و مذہب ہے جو ربّ العالمین کا دین ہے ، جو رحمت اللعالمین ﷺکا دین ہے اور اس دِین کی ’’مینوئل بک ‘‘ قرآنِ ذی شان ہے۔جس میں انسان کے لیے اوامر و منکرات کے احکامات ہیں۔ اس میں جہاں اوامر پر عمل کرنے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے وہیں پر منکرات سے پرہیز و بیزاری بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث بھی بنتی ہے۔ جب ہم اِن سنہری اُصول و ضوابط کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تانے بانے بنیں گے تو پھر ایک اچھا اِسلامی معاشرہ جنم دینے میں کامیاب ہوں گے۔ تحقیقی انداز میں اِسلام کو پرکھ لیا تو پھر کسی بھی تحقیق میں تشنگی باقی نہیں رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *